نئی دہلی، 14/دسمبر (ایس او نیوز /ایجنسی) دہلی ہائی کورٹ نے جمعہ کے روز مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر دوئم کے پڑپوتے کی بیوہ کی طرف سے داخل کی گئی اس عرضی کو خارج کر دیا جس میں انہوں نے خود کو جائز جانشین قرار دیتے ہوئے راجدھانی کے لال قلعہ کی ملکیت دینے کی درخواست کی تھی۔
کارگزار چیف جسٹس وبھو باکھرو اور جسٹس تشار راؤ گیڈیلا کی بنچ نے ہائی کورٹ کے سنگل جج کے دسمبر 2021 کے فیصلے کے خلاف سلطانہ بیگم کی اپیل خارج کر دی۔ بنچ نے کہا کہ یہ اپیل ڈھائی سال سے زیادہ مدت کی تاخیر سے داخل کی گئی ہے جسے معاف نہیں کیا جا سکتا۔ اس تبصرہ پر سلطانہ بیگم نے کہا کہ وہ اپنی خراب صحت اور اپنی بیٹی کے انتقال سے پریشان تھیں اور اپیل داخل نہیں کر سکیں۔ حالانکہ بنچ نے صاف لفظوں میں کہا کہ ’’ہم مذکورہ وضاحت کو ناکافی پاتے ہیں، یہ دیکھتے ہوئے کہ تاخیر ڈھائی سال سے بھی زیادہ کی ہے۔‘‘ ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی کہا کہ ’’یہ عرضی پہلے ہی کئی دہائیوں تک التوا میں رہنے کی وجہ سے (سنگل جج کے ذریعہ) خارج کر دیا گیا تھا۔ تاخیر کے لیے معاف کرنے کی درخواست کو خارج کیا جاتا ہے، اپیل بھی خارج کی جاتی ہے۔‘‘
دراصل سنگل جج نے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعہ ناجائز طریقے سے قبضے میں لیے گئے لال قلعہ پر ملکیت کا مطالبہ کرنے والی سلطانہ بیگم کی عرضی 20 دسمبر 2021 کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا تھا کہ 150 سے زیادہ سالوں کے بعد عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے میں بلاوجہ تاخیر کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
ایڈووکیٹ وویک مورے کے ذریعہ سے داخل عرضی میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 1857 میں پہلی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے شاہی کنبہ کو ان کی ملکیت سے محروم کر دیا تھا اور شہنشاہ کو ملک بدر کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ مغلوں سے لال قلعہ کا قبضہ زبردستی چھین لیا گیا تھا۔ اس میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ سلطانہ بیگم لال قلعہ کی مالکن ہیں کیونکہ انھیں یہ وراثت بہادر شاہ ظفر دوئم سے ملی ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ بہادر شاہ ظفر دوئم کا 11 نومبر 1862 کو 82 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا تھا اور حکومت ہند کا (ان کی) ملکیت پر ناجائز قبضہ ہے۔
اس عرضی میں مرکزی حکومت کو یہ ہدایت دینے کی گزارش کی گئی تھی کہ وہ لال قلعہ کا قبضہ عرضی دہندہ کو سونپ دے، یا پھر مناسب معاوضہ دے۔ اس میں 1857 سے لے کر اب تک لال قلعہ پر حکومت کے مبینہ ناجائز قبضہ کے لیے بھی معاوضہ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔